Suspense Digest September 2023 [Download PDF]

0
26

Suspense Digest September 2023 [Download PDF]

Download

مینی کا جھمکا لگا ہے۔ پرنالے بہہ رہے ہیں۔ برآمد ہے سے ایک لڑکے کی آواز آرہی ہے۔ چھلنی میں مرچیں بادل کی کرچیں میری بھابی ام ریحانہ نے ایک کاغذ پر چہل قاف لکھ کر اور اس کے بالائی حصے میں دھاگا پرو کر ہار سنگھار کی ٹہنی میں لڑکا دیا ہے۔ بس اب کوئی دم میں بادل چھٹ جائیں گے۔
میرا ہمزاد بائیں دروازے سے داخل ہو کر میرے سامنے آن بیٹھا ہے۔ چند لمحے بعد وہ آپ ہی آپ ایک اداس محویت کے ساتھ خود کلامی کے انداز میں مصروف تکلم ہو جاتا ہے۔ سنا ہے کہ ایک ہی معاشرے میں ایک ہی زبان بولنے اور ایک ہی سا احساس رکھنے والے دو گر وہ ایک دوسرے کا جیتا لہو بہار ہے ہیں۔ میں نے غلط کہا، جیا لہ نہیں، یہ تو سات سو ساڑھے سات سو برس کا بگڑا ہوا لہو ہے۔ اردو معاشرے کی سیاست اور اردو تہذیب کی تاریخ کا بگڑا ہو۔ میں تو اب اپنے وجود سے گھر سے گھن کھانے لگا ہوں۔ میں وقت کی ایک سڑاند ہوں ۔ میر الحلحہ ایک بہتان اور اتہام ہے۔ میر الہو اونٹ رہا ہے۔ میں زندگی کے بہاؤ سے کٹ گیا ہوں اور ایک جو ہر بن کے رہ گیا ہوں۔ مجھے جوہڑ ” پر یاد آیا کہ میرے بزرگ اپنی زبان کو کوثر تسنیم سے دھلی ہوئی زبان کہتے تھے۔ ہنی، ہشت ۔ اردو تہذیب کے بے چارے بزرگوں، عالی ستان بزرگوں کے کچھ نام ہیں جو کسی ترتیب کے بغیر میرے ذہن میں آ رہے ہیں۔ مسعود سعد سلمان لاہوری، امیر خسرو، بھگت کبیر، رحیمن ( عبدالرحیم خان خاناں ) شمس العشاق، خواجہ بندہ نواز گیسو در از قلی قطب شاہ وجہی، فضلی ، شاعر شاعراں ولی، ارسطوئے ہند خان آرزو، خدائے سخن میر، مرزا . سودا، حیدر بخش حیدری دیگر ، خدائے سخن میر انیس ، غالب علی کل غالب، پیر و مرشد حضرت بہادر شاہ ظفر، حالی، محمد حسین آزاد، نذیر احمد، شبلی، رتن ناتھ سرشارہ علامہ اقبال منشی پریم چند، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی ، مولانا ظفر علی خاں، جوش ملیح آبادی، فراق، جگر، یگانہ چنگیزی ،منٹو، مولانا عبد المجید سالک، ن م راشد، کرشن چندر یہ ہیں اردو تہذیب کے چند جاوداں نام ۔ مگر یہ کیوں تھے؟ انہیں کیوں ہونا چاہیے تھا؟ ان کے نہ ہونے سے آخر کیا فرق پڑتا؟ ان کے ہونے سے آخر کیا فرق پڑا؟ جب کہ ان کے وارث ہم ہیں، بے ہودہ ترین ہم۔ مینے تو بھی کبھی برستا ہے، پر نالے تو کبھی کبھی بہتے ہیں، پر ان ناموں کے وارث ایک دوسرے کا لہو روز بہاتے ہیں۔ میں تم اور ہم سب لہو بہنے اور بہانے کا لگا تار، موسم منانے اور خاک کو لہو سے رچانے میں ایسے طاق اور مشاق ہو گئے ہیں کہ صل علی ۔ میں تمہاری زبان کی گرہ کھولنے والوں ، اسے اس کے طور سے بولنے والوں اور اس ناشدنی کے جو ہر تولنے والوں میں سب سے زیادہ پیچ اور پوچ متنفس ہوں ۔ پر مجھے ایسے لوگ ، رایگاں لوگ تو سالہا سال سے ہونے کی طرح ہیں ہی نہیں۔ اور اس شہر ، اس خود آزار اور خوں خوار شہر کا کوئی شہری ہونے کی طرح ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ میں اپنے حسابوں اس نحوست زدہ قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں جس نے تمہیں، اردو تہذیب کے جواں فکر نمایند و! تمہیں سیدھ کے سجاؤ پر لانا ایاں تھے کہ میں اپنی نوکروں پر کھا۔ ہم تمہاری بد بخت زبان کے ادیب و شاعر تھے اس لیے مرنے میں دھتکار دیا کیا تاریخی حقیقت محفوظ نہیں رکھے گی کہ دھتکارنے والے کون تھے اور دھتکارے جانے والے کون؟ تمہارے اور ہمارے بعض معتبر بزرگوں نے ایک خواب دیکھا تھا اور بڑی لگن سے دیکھا گیا تھا۔ جب اس خواب کی تعبیر مل گئی تو نو ظہور اور مقدین سیاست مداروں نے اس تعبیر کو خواب کے منہ پر دے مارا اور ارشاد فرمایا کہ یہ ملک انسانوں کی بہبود اور مہداشت کے لیے نہیں، فرشتوں کی بہبود اور بہداشت کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ داستان نہ مختصر ہے اور نہ خوشگوار ۔ بہر حال پھر ایک نئی نسل بر روئے کار آئی ہم پر روئے کار آئے اور تم نے خیالوں کے بجائے حقیقت کی، حقیقی مسئلوں کی بات کی ۔ اور یہ ایک خیر طلبی کی بات تھی مگر یہ خیر طلبی صرف اپنے گروہ سے تعلق رکھتی تھی اور یہیں سے سارا معاملہ چوپٹ ہو گیا۔ یہ طور صرف تمہی نے نہیں اختیار کیا، اس ملک کے ہر گروہ نے اختیار کیا۔
میں یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اردو بولنے والے ہوں یا سندھی بولنے والے، بلوچ ہوں یا پختون، پنجابی ہوں یا سرائیکی یا دوسرے، یہ سب کے سب ان حساس اور باشعور نو جوانوں اور جوانوں کی ذمے داری ہیں جو لوگوں کا حق منوانے کی اہلیت اور استطاعت رکھتے ہوں اور جنہیں قبول عام اور قبول عوام کی سند حاصل ہو ۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ات یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی ایسا گروہ نہیں پایا جاتا جس کی جیب میں دوسرے گروہوں کے لیے بھی کوئی مردہ نامہ ہو میں
انسانوں کو زبانوں میں، علاقوں میں عقیدوں میں اور نسلوں میں بانٹنا، ذہن اور نمل کا سب سے زیادہ گندہ اور گھناؤنا جرم خیال کرتا ہوں۔ میری حقیر ترین مگر عزیز ترین خواہش یہ ہے کہ نئی نسل کے مقتدر سیاست داں نئی توانائی ، نئی پر ماجرائی، نئے حو صلے اور نئے ولولے کے ساتھ اپنی صف بندی کریں، ایسی صف بندی جو اس ملک کے تمام عوام ہمحروم عوام کے لیے زندگی خیز اور دل انگیز امیدوں کا جال پر دو سر مایہ قرار پائے اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو میں جس طرح اب اداس ہوں، آئندہ بھی اداس رہوں گا مگر بھلا میں کون !
یہ تھا میرے ہمزاد کا کلام جو تمام ہوا
سسپنس ڈائجت 7 ستمبر 2023ء

Previous articleKhawateen Digest September 2023 [Download PDF]
Next articleHina Digest September 2023 [Download PDF Free]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here