کسانوں کے کھیتوں میں خرگوشوں کے بنائے ہوئے بظاہر دکھنے والے عام سے سوراخ زیر زمین ایک ایسے ٹھکانے کی جانب لے کر جاتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قرون وسطی کے مذہب کے ماننے والوں کے زیر استعمال تھا۔ لیکن کیا سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا دکھتا ہے؟
مقامی قدیم لوگوں کے مطابق شروپشائر میں شفنل کے قریب ’سینٹن کیوز‘ کو 17ویں صدی میں نائٹس ٹیمپلر کے ماننے والے استعمال کرتے تھے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زیر زمین تقریباً ایک میٹر سے بھی کم فاصلے پر موجود یہ غار ساخت کے لحاظ بالکل پہلے جیسی ہی ہیں اور شاید ان کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔
ان کا اصل مقصد تو کہیں کھو گیا ہے لیکن ہسٹورک انگلینڈ جنھوں نے ان غاروں کو ’سرداب‘ قرار دیا ہے اور ان کے خیال میں یہ غاریں ممکنہ طور پر 18ویں یا 19ویں صدی کے آغاز میں تعمیر کی گئی تھیں۔
ہسٹورک انگلینڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ دور جدید میں ان غاروں میں جانے والے لوگ انھیں کالے جادو کے عمل کرنے کے لیے استمعال کرتے تھے۔‘
انٹرنیٹ پر ان غاروں سے متعلق ویڈیو دیکھنے کے بعد برمنگھم سے تعلق رکھنے والے فوٹوگرافر مائیکل سکاٹ ان غاروں کی تصاویر بنانے گئے۔

مائیکل سکاٹ کا کہنا ہے کہ ’مجھے کافی چلنا پڑا ان غاروں کو تلاش کرنے کے لیے، لیکن اگر آپ کو معلوم نہیں کہ یہ غاریں کہاں ہیں تو آپ ان کے قریب سے ہی گزر جائیں گے۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ کتنی قدیم ہیں ان کی حالت زبردست ہے، یہ زیر زمین کوئی عبادت گاہ لگتی ہے۔‘
سرنگ چند گزرگاہوں اور چٹانوں سے بنے محرابوں کی جانب لے کر جاتی ہے۔

مسٹر سکاٹ کے مطابق غار ’کافی تنگ‘ تھی اور اگر کوئی چھ فٹ قد والا شخص وہاں جائے تو اسے ضرور جھکنا پڑے گا۔ ان کے بقول بعض جگہیں تو اتنی چھوٹی تھیں کہ ان کو دیکھنے کے لیے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل وہاں جانا پڑا۔
’مجھ جھک کر نیچے جانا پڑا اور جب میں نیچے آگیا تو وہاں مکمل خاموشی تھی۔ وہاں چند مکڑیاں تھیں اور بس کچھ اور نہیں تھیں۔ بارش ہو رہی تھی اس لیے ڈھلان پر تھوڑی پھسلن تھی لیکن غار کے اندر سب کچھ خشک تھا۔
اطلاعات کے مطابق ان غاروں کو 2012 میں بند کر دیا گیا تھا جس کی وجہ خانہ بدوشوں اور ’کالا جادو کرنے والوں ‘ کو دور رکھنا تھا۔
چونکہ ان غاروں اور قرون وسطی کے درمیان تو تعلق دکھائی نہیں دیتا، تو پھر ٹیمپلر کون تھے؟
12ویں صدی میں کیتھولک آرمی بنانے اور یروشلم کی جانب جانے والے خطرناک روڈ پر مقدس مقامات کا تحفظ کرنے کے لیے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا۔
اس فوج کے ارکان مذہبی افراد تھے جو جنگجوؤں کی طرح مسلح ہوتے، انھیں بعض قانونی استحقاق حاصل ہوتے اور چرچ کی جانب سے حمایت بھی حاصل ہوتی۔